اِک عمر تک میں اُس کی ضرورت بنا رہا
اِک عمر تک میں اُس کی ضرورت بنا رہا
پھر یوں ہوا کہ اُس کی ضرورت بدل گئی
بے وفائی کی سب کتابوں میں
بے وفائی کی سب کتابوں میں
تمہارے جیسی کوئی مثال نہیں
شک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستوں
شک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستوں
اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستوں
ہم سے بے وفائی کی انتہاء کیا پوچھتے ہو محسن
ہم سے بے وفائی کی انتہاء کیا پوچھتے ہو محسن
وہ ہم سے پیار سیکھتا رہا کسی اور کے لیے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
لفظِ وفا سے اب وہ تاثر نا کر قبول
لفظِ وفا سے اب وہ تاثر نا کر قبول
اِس عام فہم لفظ کے معنی بدل گئے
نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تیری ہرگز
نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تیری ہرگز
گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے نبھائی ہو
لینا پڑھے گا عشق میں ترکِ وفا سے کام
لینا پڑھے گا عشق میں ترکِ وفا سے کام
پرہیز اِس مرض میں ہے بہتر علاج سے
ثابت تو ہو گیا کہ میں بے وفا نہیں
ثابت تو ہو گیا کہ میں بے وفا نہیں
یہ اور بات کہ میری دنیا اُجڑ گئی
میں نے کب مانگا ہے تم سے اپنی وفاوٰں کا سِلہ
میں نے کب مانگا ہے تم سے اپنی وفاوٰں کا سِلہ
بس درد دیتے رہو، محبت بڑھتی رہے گی
محبت تو محبت هوتی هے
محبت تو محبت هوتی هے
پھر چاهے حاصل هو یا لاحاصل