ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
Poet: عباس تابش
!! ماں کا لمس آبِ شفا ہو جیسے
احساسِ درد سے کر دیتا ہے آزاد
ماں کا لمس آبِ شفا ہو جیسے
Poet: سعدیہ عنبرؔ جیلانی
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
“یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے”
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
“میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اِک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا”
مدتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل
“مدتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل
مدتوں بعد ہمیں نیند سہانی آئی”
کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں
“کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں
یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے”
لاکھ ڈھونڈو پھر آغوشِ محبت
“لاکھ ڈھونڈو پھر آغوشِ محبت
بعد مرنے کے پھر ماں نہیں ملتی”
اب اُنہیں میرا بولنا اچھا نہیں لگتا
“اب اُنہیں میرا بولنا اچھا نہیں لگتا
بچپن میں جو مجھ سے کہانیاں سُنا کرتے تھے”
سناٹا سا چھا گیا بٹوارے کے قصے میں
“سناٹا سا چھا گیا بٹوارے کے قصے میں
پوچھا جب ماں نے میں ہوں کس کے حصے میں”
برتن مانجھ کر ماں دو چار بچے پال ہی لیتی ہے
“برتن مانجھ کر ماں دو چار بچے پال ہی لیتی ہے
مگر دو چار بچوں سے ایک ماں نہیں پالی جاتی”
خدا کا عرش تھر تھرانے لگتا ہے
“خدا کا عرش تھر تھرانے لگتا ہے
جب کوئی ماں کو ستانے لگتا ہے”
ماں کے چہرے کو دیکھ کر مُسکرادیا کرو
“ماں کے چہرے کو دیکھ کر مُسکرادیا کرو
ہر کسی کی قسمت میں حج نہیں ہوتا”
پر کیا لگے کہ گھونسلے سے اُڑ گئے سبھی
“پر کیا لگے کہ گھونسلے سے اُڑ گئے سبھی
وہ پھر اکیلی رہ گئی بچوں کو پال کر”