دُعا ہے آپ دیکھیں زندگی میں بے شمار عیدیں
خوشی سے رقص کرتی ،مسکراتی، بہار عیدیں
عید آئی ہے ، مسرت کی پیا می بن کر
وہ مسرت جو تیری عید سے وابستہ ہے
اُس سے مِلنا تو اُسے عید مُبارک کہنا
یہ بھی کہنا کہ مری عید مبارک کر دے
ان ہی سوچوں میں گزر جاتی ہیں عیدیں میری
کیا مجھے بھول کے وہ عید مناتا ہو گا
جس کے بغیر شام گُزری نہ تھی کبھی
اُس کے بغیر “عید “گزر گئی
عید کے دِن نہ سہی ، عید کے بعد سہی
عید تو ہم بھی منائیں گے، تیری دید کے بعد
آنکھ تم کو ہی جب نہ پائے گی
عید کیسے منائی جائے گی
تلخیاں چبھنے لگیں جب زیست کے پیمانے میں
درد کے ماروں نے گھول کے پیا عید کا چاند
جو بڑھاتے ہیں بھاو منڈی کا، اُن کی من مانیوں کے عادی ہیں
دیں گے مہنگائی میں بھی قُربانی، ہم تو قُربانیوں کے عادی ہیں
احباب پوچھتے ہیں بڑی سادگی کے ساتھ
میں اَب کے سال عید مناوں گا کِس طرح