نفرتوں کے تیر کھا کر، دوستوں کے شہر میں
نفرتوں کے تیر کھا کر، دوستوں کے شہر میں
ہم نے کس کس کو پکارا، یہ کہانی پھر سہی
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
اے خدا اِس دنیا میں، اِک اور بھی کمال کر
اے خدا اِس دنیا میں، اِک اور بھی کمال کر
یا عشق کو انسان کر، یا خود کشی حلال کر
کہتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اِک بزرگ
کہتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اِک بزرگ
ہم لوگ بھی مرید اُسی سلسلے کے ہیں
لوگ اگر یونہی کمیاں نَکالتے رہے تو
لوگ اگر یونہی کمیاں نَکالتے رہے تو
اک دن صرف خوبیاں ہی رہ جا ئینگی مجھ میں
آج تو دل کے درد پر ہنس کر
آج تو دل کے درد پر ہنس کر
درد کا دل دکھا دیا میں نے
ہم محبتوں میں درختوں کی طرح ہیں
ہم محبتوں میں درختوں کی طرح ہیں
جہاں لگ جائیں مدتوں وہی کھڑے رہتے ہیں
حُسن یوسف جیسا ہو یا صورت بلال جیسی
حُسن یوسف جیسا ہو یا صورت بلال جیسی
عشق اگر روح سے ہو تو ہر روپ کمال ہوتا ہے
اچھے اچھوں سے مجھے میرا برا اچھا ہے
مجھ سے مت پُوچھو کہ اس شخص میں کیا اچھا ہے
اچھے اچھوں سے مجھے میرا برا اچھا ہے
کس طرح مجھ سے محبت میں کوئی جیت گیا
یہ نہ کہہ دینا کہ بستر میں بڑا اچھا ہے
Poet: تہذیب حافی
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
Poet: جون ایلیا